بے حس فصیلِ خشت ہیں بندے تو ہیں نہیں
دیدہ ورانِ عصر بھی تکتے تو ہیں نہیں
رکھی ہوئی ہیں میتیں ہر چوک میں مگر
لاشوں کے اس ہجوم میں کندھے تو ہیں نہیں
ہر کوئی کہہ رہا ہے جگر کٹ گیا مرا
اس حال میں بھی لوگ یہ مرتے تو ہیں نہیں
تم بات کر رہے تھے کسی انقلاب کی
اونچے گھروں کے برج ابھی ٹوٹے تو ہیں نہیں
سب خواب مر رہے ہیں سرہانے پڑے پڑے
اب لوگ خوابگاہ میں سوتے تو ہیں نہیں
اپنے بدن سے آ گیے کب کے نکل کے ہم
اچھے دنوں کے قافلے آنے تو ہیں نہیں
لفظوں کو کوڑا دان میں اب پھینک دیں فگار
کیا ان کو وہ پڑھیں گے جو سنتے تو ہیں نہیں
بے حس فصیلِ خشت ہیں بندے تو ہیں نہیں
(سلیم فگار)