نئی نہیں ہے یہاں رسم خونخواری کی

زمیں پہ آتے ہی یہ آدمی نے جاری کی

ہمارے ہونے نہ ہونے کی کیا خبر اس کو

نہ ہم نے پھول بچھائے نہ سنگ باری کی

پلک جھپکتے سفر طے ہوا زمانوں کا

یہ ہم نے کون سے سیارے پرسواری کی

اب اس کے بعد تو مشکل ہے کوئی دل پگھلے

یہ سرد مہری نشانی ہے برفباری کی

کوئی بھی کام نہ دل سے کبھی کیا شہزاد

یہاں تو ہم نے محبت بھی اختیاری کی

نئی نہیں ہے یہاں رسم خونخواری کی

(قمر رضا شہزاد)