سرمایہ

سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے

اس لیے اسٹاک مارکیٹ میں

روپے کی قدر گر جانے پر شور مچ رہا ہے

اسے میری آنکھیں اچھی لگتی ہیں

مگر

ان میں چھپے خوابوں سے وہ نظریں بچاتا رہتا ہے

ہر طرف مذاہبِ عالم کے صندوق سے

عقائد کے خزانے تقسیم ہو رہے ہیں

اور انسان؟

انسان خاک کی قیمت رائگاں ہے

سچائی کی قیمتی مالا

شو کیس میں سجی ہے

اور

سڑک کے چوراہے پر

کسی سچے کی گردن

اب بھی صلیب پر جھُول رہی ہے

اور

انصاف کا ہیرا تو کیسا انمول ہے

وہ سامنے خاک پر

ایک کٹی ہوئی انگلی میں جگمگا رہا ہے

انگلی کی پور پور سے خون بہہ رہا ہے

مذہب، سیاست حد یہ ہے کہ

محبت کے بازار میں بھی سرمایہ

سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے

حُسنِ ظاہری، باطنی افلاس کو چھپانے میں مگن ہے

سخن پروری کے لیے راتب مہیا کرتے کرتے

میری شاعری مجھ کو نگل چکی ہے

سرمایہ

سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے !!

سبقتِ ذات

(تسنیم عابدی )