صحرا سے اُٹھ کے یوں ہی سمندر میں آ گیا

اک بے کنار پیاس کے لشکر میں آ گیا

ڈھونڈا گیا ہے کتنے زمانوں کے تلک مجھے

یونہی نہیں میں خاک کے منظر میں آ گیا

مخفی رہا ہوں کتنے غلافوں میں اور پھر

سب پردہ ہائے راز سے باہر میں آ گیا

جانے ہوائے شام میں کیسا سرور تھا

اپنے دیے کی آنکھ سے بجھ کر میں آ گیا

آواز دے رہی تھی یہ تنہا زمیں مجھے

اک روز اپنے رخشِ گنہ پر میں آ گیا

صحرا سے اُٹھ کے یوں ہی سمندر میں آ گیا

(سلیم فگار)