ستارہ راہ نما کہاں ہے
کہ بام دشتِ مسافت کل
سمٹ کہ بس ریت ہو چکا ہے
غبارِ گردِ سکوت سے دل
عجیب وحشت کا آستاں ہے
تمام ماضی کے قافلوں کے
نشان مدت سے مٹ چکے ہیں
ہوا نے رستے نگل لیے ہیں
شفق کے رنگوں میں سرخ جھرنے
لہو کے چھینٹوں کی بو سے تر ہیں
سبھی تعاقب زدہ نگاہیں
مشامِ جام و سبو سے تر ہیں
خیالِ وحشت رواں دواں ہے
ستارہ راہ نما کہاں ہے
ستارہ راہ نما کہاں ہے
(عاطف توقیر )