محبت اور اس کی سبھی نرم شاخیں

گزشتہ صدی سے بدن کی رگوں میں نمو پارہی ہیں

تمنا کی ترشی زباں سے گلے تک گھلی جارہی ہے

نظر اور حدِ نظر تک نظارے

کہیں بہتے جھرنے، کہیں ابر پارے

تیرے نام کی اس سنہری مہک سے چمکنے لگے ہیں

یہ بستی، جو دل ہے

یہاں بسنے والوں کی خوش رنگ آنکھیں

مجھے تک رہی ہیں

مَیں چھاؤں میں جن موسموں کی پلی ہوں

میں جن انگلیوں کو پکڑ کر چلی ہوں

وہ موسم میرے ساتھ بڑھنے لگے ہیں

میرے اندروں جو وفا پل رہی تھی

کہیں قطرہ قطرہ یہ پھر جل رہی ہے

مجھے اپنے حصے کی ان ساعتوں پر

گماں ہورہا ہے جو میں نے گزاریں،

وہ سب سرد سانسیں جنہوں نے مرے

گرد اپنی دعاؤں کے ہالے بنائے

وہی سرد سانسیں تپش بن کے پھر مجھ میں بہنے لگی ہیں

گزشتہ زمانے جو مجھ میں پڑے ہیں

محبت کے قصے جو مجھ سے جڑے ہیں

میں اپنی زبانی بتانے لگی ہوں

تیرے نرم ہاتھوں پہ سرگوشی کر کے

میں پچھلی کہانی سنانے لگی ہوں۔۔!

تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے

(انجیل صحیفہ)