یہ میں نے یہاں خود سے جوانگشت چھڑالی
اک زہر بھرے آدمی سے جان بچالی
ہر شخص نے جب رخت سفر اپنا اٹھایا
خوابوں سے بھری پوٹلی میں نے بھی اٹھالی
جو مجھ سے ادا ہونہ سکے خوف کے مارے
میں نے انہی الفاظ سے اک چیخ بنالی
کچھ اور نہیں تھا مرے ہونٹوں پہ ہنسی تھی
اور وہ بھی ترے شہر کے لوگوں نے چرالی
پھر بھی یہ مجھے چھو ڑ کے جاتی نہیں شہزاد
میں نے تری دنیا سے توجہ بھی ہٹالی
یہ میں نے یہاں خود سے جوانگشت چھڑالی
(قمر رضا شہزاد)