یہ رات ہے کہ تری چشم صندلیں کا فسوں
کہ جھومتا چلا جاتا ہے کیف ہجر میں دل
جمیل چہرے پہ آنکھوں کے نرم رو حلقے
افق پہ ہالۂ مہتاب کو تراشتے ہیں
ہماری نیند کے ٹوٹے ہوئے شبستاں میں
تمہارے ہونٹ کسی خواب کو تراشتے ہیں
یہ رات ہے یا اداسی بھری خلاؤں میں
بکھیر دی ہے کسی نے مرے وجود کی خاک
کہیں پہ راکھ چمکتی ہے عہدوپیماں کی
کہیں پہ نم ہوئی جاتی ہے ہست و بود کی خاک
یہ تم، یہ رات یہ جادو یہ چاند کا نغمہ
یہ تم،یہ منظر مہتاب دیکھتی ہوئی میں
یہ تم ، یہ وقت تمہارے حضور جھکتا ہوا
کہیں نہیں ہوں مگر، دور تک کہیں نہیں میں
یہ رات ہے کہ
(صائمہ زیدی )