ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندە
جس طرح جسم کو سانسوں کی حرارت زندە
روز اک خوف کی آواز پہ ہم اٹھتے ہیں
روز ہوتی ہے دل و جاں میں قیامت زندە
اب بھی انجان زمینوں کی کشش کھینچتی ہے
اب بھی شاید ہے لہو میں کوٴی ہجرت زندە
طاعت جبر بہت عام ہوٴی جاتی تھی
ایک انکار نے کی رسم بغاوت زندە
ہم تومر کر بھی نہ باطل کو سلامی دیں گے
کیسے ممکن ہے کہ کر لیں تری بیعت زندە
ہم میں سقراط تو کوٴی نہیں پھر بھی شہباز
زہر پی لیتے ہیں رکھتے ہیں روایت زندە
ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندە
(شہباز خواجہ)