پا بہ زنجیر، کبھی خاک بہ سر کھینچتے ہیں

شب کے ماتھے پہ ہمی نقش _ سحر کھینچتے ہیں

جو نہیں مانتے افلاک کی گردش کا سبب

اُن کے اصرار پہ ، ہم بار _ دگر کھینچتے ہیں

سبز ہوتے ہُوئے پیڑوں پہ بڑی حیرت ہے

کس طرح خاک سے یہ برگ و ثمر کھینچتے ہیں

ایک دھاگا ہے تعلق کا، ہمیں کھینچتا ہے

ٹُوٹ سکتا ہے اُسے ہم بھی اگر کھینچتے ہیں

وہ چلا جائے جسے شوق _ پذیرائی ہے

ہم نہیں جاتے! ہمیں لوگ جدھر کھینچتے ہیں

پا بہ زنجیر، کبھی خاک بہ سر کھینچتے ہیں

(شہباز خواجہ)