اندر بھی تھا خلا سو خلا دیکھتا رہا

میں آسماں کی سمت کھڑا دیکھتا رہا

اندر پرانے زخم کی صورت بگڑ گئی

میں چہرہ آئینے میں کھڑا دیکھتا رہا

اِک میں کہ دیکھتا رہا اُس میں خدا کو اور

اِک اور شخص مجھ میں خدا دیکھتا رہا

میری نشست اُس سے ذرا دور تھی مگر

میں اُس کے ساتھ خالی جگہ دیکھتا رہا

آنکھوں میں اِس قدر تھی مرے تیرگی کہ میں

جلتے ہوئے دیئے کو بجھا دیکھتا رہا

کچھ اور دیکھنے کو نہیں تھا کہ دیکھتا

سو وقت کو گزرتا ہُوا دیکھتا رہا

وہ مجھ سے پوچھتا رہا کیسے ہو تم عزیر

اور میں ہوا میں جلتا دیا دیکھتا رہا

اندر بھی تھا خلا سو خلا دیکھتا رہا

(عزیر یوسف)