بیٹھے بیٹھے ہی بہت نام مجھے چاہئیے ہے

اپنی توصیف تو ہر گام مجھے چاہئیے ہے

اپنا کردار بھی میں اس میں ُچھپا سکتا ہوں

بس یہ اک جامہء احرام مجھے چاہئیے ہے

جس کو چاہوں میں جہاں چاہوں بنا دوں کافر

ان دنوں ایسا ہی اسلام مجھے چاہئیے ہے

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں شام تلک

اور اسی بات کا انعام مجھے چاہئیے ہے

جا بھی سکتا ہوں پلٹ کر ترے در کی جانب

لیکن اس وقت تو آرام مجھے چاہئیے ہے

جا نکلنا تھا کسی جھونک میں افلاک کے پار

ہے کہاں ؟ جو تہہِ اجرام ، مجھے چاہئیے ہے

قصہ گو وقت کہاں ساری کہانی کے لئیے

دیر مت کر فقط انجام مجھے چاہئیے ہے

اک کتابوں سے بھری صبح ہے درکار مجھے

اور اک مے سے بھری شام مجھے چاہئیے ہے

اپنی بے کاری سے کچھ تنگ بھی آیا ہوا ہوں

اب تو کرنے کو کوئ کام مجھے چاہئیے ہے

بیٹھے بیٹھے ہی بہت نام مجھے چاہئیے ہے

(احمد مبارک)