باغوں کو جائیں گُھومنے ، ساحِل بحال ہوں
َٹل جاۓ یہ بلا تو مشاغل بحال ہوں
سب ایک دوسرے کے مقابل بحال ہوں
لیکن خدا کرے کہ نہ قاتل بحال ہوں
کب تک پڑیں رہیں گے گھروں پر یہ زندہ لوگ
رستے کُھلیں سفر کے مراحل بحال ہوں
گریہ کُناں ہے سارے کا سارا چمن کہ کب
تیرے گُلاب تیرے عنادِل بحال ہوں
ہو اذنِ باریابئ بابِ قبولیت
پھر دستکیں سُنائ دیں سائل بحال ہوں
نکلے گی کوئ راہ پسِ راہ گذارِ ہجر
لگتا ہے اپنے ربط بمشکل بحال ہوں
کب جمع آن ہوں گے مرے یارِ خوش سُخن
احوالِ دل سُنیں تو ذرا دِل بحال ہوں
باغوں کو جائیں گُھومنے ، ساحِل بحال ہوں
(احمد مبارک)