بہت آواز دیں پر ایک بھی لوٹی نہیں شاید

میں بہرا ہو گیا ہوں یہ وہاں کوئی نہیں شاید

پھر اک دن تنگ آ گھر کے در و دیوار بول اُٹھّے

تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ تمھے کُچھ بھی نہیں شاید

کُچھ اپنی ذات سے ہر روز گھٹتا جا رہا ہوں میں

میں ایسا روگ ہوں جسکی دوا ہے ہی نہیں شاید

تیری مُبہم سی صورت یاد کرنے کی مشقّت میں

کئی تصویر اُبھریں پر کوئی تجھ سی نہیں شاید

تمہارے پاس گھر جیسی کوئی پُختہ جگہ تو ہے

مگر میرے لِئے کُچھ بھی نہیں میں بھی نہیں شاید

دکھائی دے رہا ہے سب مگر چھونے سے قاصر ہوں

میرے خوابوں میں سب کچھ ہے مگر مٹّی نہیں شاید

بہت آواز دیں پر ایک بھی لوٹی نہیں شاید

(صفر شرما )