دریا ہی کہیں لے چلے پتوار نہیں ہے

اِس پار نہیں کوئی بھی اُس پار نہیں ہے

پھیرے کو چلی آئے اِدھر موت کسی دن

کمبخت دل اتنا بھی تو بیمار نہیں ہے

پیچھے پڑی ہے زندگی خوں مُن٘ہ میں لگائے

اس پر یہ ستم پانو میں رفتار نہیں ہے

صحرا سے چلے آئے ہیں جنگل کی طرف ہم

اب موسمِ تنہائی میں ویاپار نہیں ہے

اِس سال بھی کر لینگے محبّت کا تماشا

اِس سال بھی پنچانگ میں تیوہار نہیں ہے

دریا ہی کہیں لے چلے پتوار نہیں ہے

(صفر شرما )