ڈوبتے دیکھتا تھا یار مجھے
پھر بھی کہتا رہا پُکار مجھے
نام لے کر بُلایا تھا اُس نے
روندنی پڑ گئی قطار مجھے
خُود پہ بس چل نہیں رہا میرا
چاہیے اُس پہ اختیار مجھے
خام ہوں پختہ ہو گیا جس دن
پیش کر دے گا پیش کار مجھے
اشک پتھرا نہ جائیں آنکھوں میں
رونا پڑتا ہے بار بار مجھے
راستے میں کھڑا شجر ہوں میں
کھاتا جاتا ہے انتظار مجھے
ضد لگائے کھڑا ہوں ساحل پر
موج ہی لے کے جائے پار مجھے
ڈوبتے دیکھتا تھا یار مجھے
(عدنان خالد)