ہم نے اپنا آپ اٹھائے کتنے جنگل کاٹ دیئے
ویرانی کے پھل کھائے اور رات گھنی کے گیت سنے
کَون مسلسل دھول اٹھائے مجھ مین ماتم کرتا ہے
کوئی اداسی رَقْص کُناں ہے وحشت کے گھنگھرو پہنے
سنّاٹے کے لمس بدن مین سِہرن پیدا کرتے ہیں
ذہن مین کُھلنے لگتے ہیں پھر بندِ قبا آوازوں کے
اک سورج غم خوار کسی کا اور کسی کا شیدائی
ہر منظر مین ڈوب گیا پھر ایسا ڈوبا کِ ہوک اٹھے
بستی بستی ایک تماشا بکھرا ہے چوراہوں پر
جسنے جتنی آہیں پھینکیں اسکو اتنے دام ملے
پھر سے مبہم لفظ اٹھائے پھر ماتم مضمون کیا
آوازوں پر پتّھر مارے غیر ضروری بَین کیے
ہم نے اپنا آپ اٹھائے کتنے جنگل کاٹ دیئے
(صفر شرما )