جتنے لمحے ہیں مسرت کے، تمہارے سارے

مسترد کر دو جنہیں تم وہ ہمارے سارے

میری دلجوئی کو کرتے ہیں اشارے سارے

ہجر کی رات فلک سے یہ ستارے سارے

ڈوبتے دیکھ رہے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ

وہ جو ساحل پہ کھڑے ہیں مرے پیارے سارے

ایک رشتہ ہے جسے نام نہیں دے سکتا

اپنے لگتے ہیں مجھے درد کے مارے سارے

نیند اڑ جاتی ہے لوگوں کی جنہیں سوچ کے ہی

ہم نے ہنس کر وہ مہ و سال گزارے سارے

عمر بھر میں نے کمائے تھے بڑی محنت سے

رکھ لئے باندھ کے گٹھری میں خسارے سارے

مانگنے والوں کو دیتے ہیں رعونت کے ساتھ

خود جو ہوتے ہیں کہیں ہاتھ پسارے سارے

بعدازاں مشغلہ کیا ہوگا ہمارا اسلم

زخم بھر جائیں گے اک روز ہمارے سارے

جتنے لمحے ہیں مسرت کے، تمہارے سارے

(اسلم محمود )