کتاب نور کا اک جگمگاتا باب لئے
یہ صبح آئی ہتھیلی پہ آفتاب لئے
کھلا کہ خود ہے یہ دریا بھی اضطراب لئے
کہ موج موج ہے پہلو میں اک سراب لئے
چمن میں پہونچا تو دیکھا کہ خیرمقدم کو
ہے منتظر مری ہر شاخ اک گلاب لئے
مری کھلی ہوئی کھڑکی میں آکے جھانکتا ہے
ہر ایک شب تری تصویر ماہتاب لئے
یہاں تو راتیں ہیں سفاک نیند سے خالی
مگر یہ لوگ ہیں آنکھوں میں ڈھیروں خواب لئے
کسی سے پوچھ کے شرمندہ کیا کریں اسلم
ہر ایک چہرہ ہے خود عمر کا حساب لئے
کتاب نور کا اک جگمگاتا باب لئے
(اسلم محمود )