کسی گزشتہ زمانے کا نوحہ گر نہ سمجھ

میں ایک زندہ مکاں ہوں مجھے کھنڈر نہ سمجھ

ابھی میں دیکھ رہا ہوں یہاں کی وحشت کو

مرا نہ بولنا اے دوست میرا ڈر نہ سمجھ

کوئی کوئی ہے جو لوگوں کو چھاؤں دیتا ہے

ہر اک شجر کو دعا بانٹتا شجر نہ سمجھ

نجانے کتنے جہاں زیر آب آجائیں

یہ ٹھاٹھیں مارتا دریا ہے چشم تر نہ سمجھ

میں یونہی گھوم رہا ہوں ترے زمانوں میں

مجھے فقیر کے مانند در بدر نہ سمجھ

کسی گزشتہ زمانے کا نوحہ گر نہ سمجھ

(قمر رضا شہزاد)