کتنے چہروں میں بٹ گیا ہوں میں

تُو بتا ان میں کون سا ہوں میں

اور کیا کیا پڑا ہوا تھا وہاں

جس جگہ سے تجھے ملا ہوں میں

ایسے مڑ مڑ کے ڈھونڈتا ہوں تجھے

جیسے آگے گزر گیا ہوں میں

سننے والا ہی آ کے بتلائے

کس کو آواز دے رہا ہوں میں

اِک مسافر گزر چکا مجھ سے

جانے اب کس کا راستہ ہوں میں

جس قدر چاہوں کھینچ لوں زنجیر

اتنا آزاد ہو گیا ہوں میں

جس جگہ سے ہمیں گزرنا تھا

اُس جگہ سے گزر رہا ہوں میں

کتنے چہروں میں بٹ گیا ہوں میں

(عزیر یوسف)